دل کا ارماں اپنے اندر ہی چھپا رہ جائے گا
دل کا ارماں اپنے اندر ہی چھپا رہ جائے گا
کاتب تقدیر کا آخر لکھا رہ جائے گا
محفلوں میں دیکھ کے جو پھیرتا ہے اپنا رخ
وہ اکیلے میں مجھے ہی سوچتا رہ جائے گا
کہہ رہا تھا مجھ سے میرا دوست پیارا ایک دن
تو جو بچھڑا زندگی میں اک خلا رہ جائے گا
بن پڑا جب کچھ نہیں تو اس کو یہ کہنا پڑا
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
میرے گھر کی ساری رونق پیاری ماں کے دم سے ہے
ماں جو بچھڑی کیا مرے گھر میں بچا رہ جائے گا
یہ شگفتہؔ کا ہے ایماں اک حقیقت ہے خدا
آندھیوں کے بعد بھی نام خدا رہ جائے گا