دل اختیار میں ہے نہ جاں اختیار میں

دل اختیار میں ہے نہ جاں اختیار میں
ساقی نے کیا ملا دیا کیف بہار میں


تھے چار دن جو زندگئ مستعار میں
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں


ساقی کی اک نظر بھی اگر ہم پہ پڑ گئی
توبہ کا خون کر کے رہیں گے بہار میں


اس بت سے کر کے ذکر وفا ہائے کیا کیا
اک پیچ ڈال دی دل بے اعتبار میں


تھی کس کی یاد آج جو تڑپا گئی ہمیں
اک ہوک اٹھ رہی ہے دل بے قرار میں


آغوش چشم کو سبد گل بنا دیا
غنچے جو کھلکھلائے ہجوم بہار میں


یہ بھی ادائے ناز تھی وہ بھی ادائے ناز
مچلیں جو شوخیاں نگہۂ شرم سار میں


روتے مجھے جو دیکھا تو کچھ اور کھنچ گئے
الٹا فسوں تھا گریۂ بے اختیار میں


حسرت کے آنسوؤں میں تمنا کا خون ہے
پانی میں آگ ہے کہ ہے شبنم شرار میں


پروانہ صید‌ نور تو بلبل اسیر رنگ
کس کی ادا سما گئی گل میں شرار میں