دیباچۂ کتاب فرشتے سے کھو گیا
دیباچۂ کتاب فرشتے سے کھو گیا
مضمون آں جناب فرشتے سے کھو گیا
تحریر جو کیا تھا ہمارے سوال پر
یزداں کا وہ جواب فرشتے سے کھو گیا
ہم کو پیمبری کی بشارت نہیں ملی
الہام کا وہ خواب فرشتے سے کھو گیا
سرزد ہوئی تھیں نشے میں ہم سے بھی نیکیاں
وہ دفتر حساب فرشتے سے کھو گیا
کوثر سے بھر کے ساقی نے بھیجا تھا ہم کو جو
مشکیزہ شراب فرشتے سے کھو گیا
عاشق نے کوہ طور پہ کھویا ہے ہوش یوں
محبوب کا نقاب فرشتے سے کھو گیا
انجیل پاک میں تو ہمارا بھی ذکر تھا
آیات کا وہ باب فرشتے سے کھو گیا