ڈرتا ہوں میں اکثر کہیں ایسا نہ سمجھ لے

ڈرتا ہوں میں اکثر کہیں ایسا نہ سمجھ لے
وہ میری توجہ کو تمنا نہ سمجھ لے


یہ سوچ کے دانستہ رہا اس سے بہت دور
مغرور ہے دریا مجھے پیاسا نہ سمجھ لے


ہونٹوں پہ ہنسی ہاتھوں میں نشتر ہیں خبردار
کوئی کسی قاتل کو مسیحا نہ سمجھ لے


اب میں بھی چٹانوں کی طرح سینہ سپر ہوں
طوفان حوادث مجھے تنکا نہ سمجھ لے


پلکوں پہ شررؔ اشک سجایا نہ کرو تم
جگنو نہ سمجھ لے کوئی تارا نہ سمجھ لے