درد قائم ہے بدستور بڑی مشکل ہے

درد قائم ہے بدستور بڑی مشکل ہے
چارہ گر ہو گئے مجبور بڑی مشکل ہے


شکوۂ جور و جفا کرنے چلے ہو لیکن
وہ کریں گے اسے منظور بڑی مشکل ہے


ان کی یادوں کو فراموش کروں میں کیسے
دل سے ہوتی ہی نہیں دور بڑی مشکل ہے


یہ تو ان کا فقط انداز کریمانہ تھا
پھر سے آ جائیں سر طور بڑی مشکل ہے


کیسے بچ پاؤ گے فرمان غم ہجراں سے
یہ محبت کا ہے دستور بڑی مشکل ہے