چار سو خوف تیرگی ہے بہت
چار سو خوف تیرگی ہے بہت
شب کو احساس برتری ہے بہت
حکم تازہ ہے ان کو گل کر دو
جن چراغوں سے روشنی ہے بہت
نخل جاں پھر جھلس نہ جائے کہیں
دھوپ احساس کی کڑی ہے بہت
جام مے ہو کہ ساغر زہراب
کچھ بھی آئے کہ تشنگی ہے بہت
درد کا چاند ہی نکل آئے
دل کے صحرا میں تیرگی ہے بہت
کم نہ تھا جہل کا عذاب شمیمؔ
اور اب کرب آگہی ہے بہت