بتوں کے ٹھکرائے بت پرستوں کو انجمن سے قرار آیا
بتوں کے ٹھکرائے بت پرستوں کو انجمن سے قرار آیا
تمہارے دیر و حرم سے اٹھ کر ہمیں سخن سے قرار آیا
جبیں نہ آنکھوں سے لب نہ عارض کی اک چھون سے قرار آیا
نہ آرزوئے بتاں رہے ہم نہ اس چلن سے قرار آیا
کوئی جلن دل میں ایسی تھی جو بجھی تو سوز نظر سے آخر
یہ ایسی ٹھنڈک کی تشنگی تھی جسے تپن سے قرار آیا
تمہارا چہرہ بھی زندگی بھر کی الجھنوں سے تھکا ہوا تھا
ہمارے شانے کی جستجو کو بھی اس تھکن سے قرار آیا
علاحدہ ذکر اس کا میں نے کیا ہے جب بھی کسی غزل میں
مزاج روح سخن کو گویا مری کہن سے قرار آیا
ہم عشق والوں کو مہربانو نہ چارہ گر کا پتہ بتاؤ
کہاں سنا ہے کسی بھی مرحوم کو کفن سے قرار آیا
ہٹا لی آنکھوں سے سبز صورت بسائے ہیں خواب صحرا ان میں
خزاں کے عاشق کی آگہی کو اجاڑ بن سے قرار آیا