جل کر بجھتے لاوے بہہ کر آخر پتھر ہو جاتے ہیں
جل کر بجھتے لاوے بہہ کر آخر پتھر ہو جاتے ہیں
ندیوں کو ٹھکرانے والے ساحل بنجر ہو جاتے ہیں
نتھنی جھمکے چوڑی کردھن بچھوئے جھانجھر ہو جاتے ہیں
اک لڑکی کے سارے سکھ دکھ اس کے زیور ہو جاتے ہیں
رسم روایت دین دھرم ایمان بھروسے والے ہی کیوں
عشق میں جینے مرنے والے بھی پیغمبر ہو جاتے ہیں
اپنا آپ بیاں کرنے کے سو معقول طریقوں میں سے
خاموشی کو چننے والے عمدہ شاعر ہو جاتے ہیں
بت کے آگے دھیان لگائے بیٹھے رہتے ہیں دیوانے
عشق نبھاتے رہنے والے دل پوجا گھر ہو جاتے ہیں
آپ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے ہو گر ایسا ہے تو
آپ ہمارے بھیتر رہ لیں اور ہم باہر ہو جاتے ہیں