بجھائی ہے تری نظروں سے اکثر تشنگی میں نے
بجھائی ہے تری نظروں سے اکثر تشنگی میں نے
کیا ہے مدتوں اس طرح شغل مے کشی میں نے
خوشا وہ مرحلے جن مرحلوں میں جیسے گھبرا کر
مجھے آواز دی تم نے تمہیں آواز دی میں نے
مری دیوانگی کو اہل ایماں کفر کہتے ہیں
بنایا ہے بہت اونچا مقام بندگی میں نے
اب اس کو انتہائے ذوق کہیے یا جنوں کہیے
وہ پردے میں رہے تصویر دل میں کھینچ لی میں نے
ہوئی ہیں لغزشیں دونوں سے ہم دونوں ہی مجرم ہیں
کہ دامان وفا چھوڑا کبھی تم نے کبھی میں نے
میں اس محفل کو ٹھکرا کر چلا آیا ہوں اے رحمتؔ
جہاں محسوس کی اخلاص و الفت کی کمی میں نے