بیچ صحرا میں اپنا گھر نکلا

بیچ صحرا میں اپنا گھر نکلا
کیسا سودا ہمارے سر نکلا


جب سے آباد اس کی چاہت ہے
دل سے دنیا کا سارا ڈر نکلا


وہ بھی رہنے لگا ہے آنکھوں میں
عین پانی میں اس کا گھر نکلا


اس کی خوشبو کو ڈھونڈنے یارو
میں ہواؤں کے دوش پر نکلا


جن کے ہونٹوں پہ قہقہے تھے بہت
ان کا دامن بھی تر بہ تر نکلا


جلتی دھوپوں سے تنگ تھا وہ بھی
چھاؤں لینے کو خود شجر نکلا


نام سنتے تھے تاج کا جوہرؔ
وہ بھی یادوں کا اک کھنڈر نکلا