بے قراری کو بے قراری ہے
بے قراری کو بے قراری ہے
کس کے گھر جاؤں کس کی باری ہے
ساری دنیا کا دل دکھانے کی
جان من تیری ذمہ داری ہے
دل پھر اپنا انہیں کو دے بیٹھے
موت کا انتظام جاری ہے
حکم ہوتے ہی میں اچھلتا ہوں
ساری دنیا مری مداری ہے
میں کسی کو نظر نہیں آتا
کس نے میری نظر اتاری ہے
چیخ جو نئیں ابھی سنائی دی
سن لو مغلوبؔ وہ تمہاری ہے