Zuhair Kanjahi

زہیر کنجاہی

  • 1933

زہیر کنجاہی کی غزل

    پھول کا کھلنا بہت دشوار ہے

    پھول کا کھلنا بہت دشوار ہے موسم گل آج کل بیمار ہے بے وسیلہ بات بن سکتی نہیں مل گئی کشتی تو دریا پار ہے آنسوؤں کا اور مطلب کچھ نہیں مختصر سی صورت اظہار ہے دوستی کا راز افشا کر گئی دشمنی بھی اک بڑا کردار ہے ہم سفینے کے لئے اک بوجھ ہیں ہم اگر ڈوبے تو بیڑا پار ہے زندگی کی رزم ...

    مزید پڑھیے

    دل میں رکھا تھا شرار غم کو آنسو جان کے

    دل میں رکھا تھا شرار غم کو آنسو جان کے ہاں مگر دیکھے عجب انداز اس طوفان کے اپنی مجبوری کے آئینے میں پہچانا تجھے یوں تو کتنے ہی وسیلے تھے تری پہچان کے زخم خوں آلود ہیں آنسو دھواں دیتے ہوئے یہ سہانے سے نمونے ہیں ترے احسان کے درد و غم کے تپتے صحرا کی کڑکتی دھوپ میں سو گیا ہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    جینے کی ہے امید نہ مرنے کی آس ہے

    جینے کی ہے امید نہ مرنے کی آس ہے جس شخص کو بھی دیکھیے تصویر یاس ہے جب سے مسرتوں کی ہوئی جستجو مجھے میں بھی اداس ہوں مرا دل بھی اداس ہے لاشوں کا ایک ڈھیر ہے گھیرے ہوئے مجھے آباد ایک شہر مرے آس پاس ہے مجھ سے چھپا سکے گی نہ اپنے بدن کا کوڑھ دنیا مری نگاہ میں یوں بے لباس ہے یاران مے ...

    مزید پڑھیے

    بادہ کش ہوں نہ پارسا ہوں میں

    بادہ کش ہوں نہ پارسا ہوں میں کوئی سمجھائے مجھ کو کیا ہوں میں رات بکھرے ہوئے ستاروں کو دن کی باتیں سنا رہا ہوں میں میرے دل میں ہیں غم زمانے کے ساری دنیا کا ماجرا ہوں میں شعر اچھے برے ہوں میرے ہیں ذہن سے اپنے سوچتا ہوں میں کوئی منزل نہیں مری منزل کس دوراہے پہ آ گیا ہوں میں یوں ...

    مزید پڑھیے

    اک سایہ سا ہے ساتھ مگر آشنا نہیں

    اک سایہ سا ہے ساتھ مگر آشنا نہیں میں اس کو اور وہ مجھے پہچانتا نہیں اک واقعہ ہے یہ کہ وہ دل میں ہے جاگزیں اک حادثہ ہے یہ میں اسے جانتا نہیں یہ اور بات ہے کہ زمانہ ہے معترف میں خود تو اپنے آپ کو بھی مانتا نہیں کوئی ٹھکانہ میرا نہ میری کوئی زمیں ہوں میں بھی لا مکاں پہ کوئی مانتا ...

    مزید پڑھیے

    زینت ہوں انگوٹھی کی نہ لاکٹ میں جڑا ہوں

    زینت ہوں انگوٹھی کی نہ لاکٹ میں جڑا ہوں میں ایک نگینہ ہوں پہ مٹی میں پڑا ہوں کیوں ذات کے گنبد میں ہر اک شخص ہوا قید کب سے انہیں سوچوں کے دوراہے پہ کھڑا ہوں تم ساتھ مرا آ کے جہاں چھوڑ گئے تھے میں آج بھی تنہا اسی سنگم پہ کھڑا ہوں موقف سے میں ہٹ جاؤں یہ ممکن نہیں ہرگز پتھر کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    شام غم یاد نہیں صبح طرب یاد نہیں

    شام غم یاد نہیں صبح طرب یاد نہیں زندگی گزری ہے کس طرح یہ اب یاد نہیں یاد ہے اتنا کہ میں ڈوب گیا پستی میں کتنی اونچی ہوئی دیوار‌ ادب یاد نہیں میں نے تخلیق کئے شعر و سخن کے موتی میری تخلیق کا تھا کون سبب یاد نہیں جن کے جلووں سے تھا آباد جہان دل و جاں میری نظروں سے نہاں ہو گئے کب ...

    مزید پڑھیے

    مری ذات کا ہیولیٰ تری ذات کی اکائی

    مری ذات کا ہیولیٰ تری ذات کی اکائی کوئی ہم سفر ہے میرا کہ ہے تیری خود نمائی میں ہوں پر سکوں ازل سے میں ہوں پر سکوں ابد تک مگر آنکھ کہہ رہی ہے نہیں تجھ سے آشنائی میں تو لٹ چکا زمانے! مرے پاس کیا رہا ہے مرے ہونٹ سل چکے ہیں میں بھلا دوں کیا دہائی یہ فرار کا ہے لمحہ کہ قرار کی ہے ...

    مزید پڑھیے