اک سایہ سا ہے ساتھ مگر آشنا نہیں

اک سایہ سا ہے ساتھ مگر آشنا نہیں
میں اس کو اور وہ مجھے پہچانتا نہیں


اک واقعہ ہے یہ کہ وہ دل میں ہے جاگزیں
اک حادثہ ہے یہ میں اسے جانتا نہیں


یہ اور بات ہے کہ زمانہ ہے معترف
میں خود تو اپنے آپ کو بھی مانتا نہیں


کوئی ٹھکانہ میرا نہ میری کوئی زمیں
ہوں میں بھی لا مکاں پہ کوئی مانتا نہیں


وہ زخم زخم کب ہے جو ہو جائے مندمل
وہ درد درد ہی نہیں جو دیر پا نہیں


مانا کہ اس کے چاہنے والے نہیں ہیں کم
میری طرح تو کوئی اسے چاہتا نہیں


دعویٰ وفا کا یوں تو ہے ہر شخص کو زہیرؔ
یہ واقعہ ہے کوئی بھی اہل وفا نہیں