Zuhair Kanjahi

زہیر کنجاہی

  • 1933

زہیر کنجاہی کے تمام مواد

8 غزل (Ghazal)

    پھول کا کھلنا بہت دشوار ہے

    پھول کا کھلنا بہت دشوار ہے موسم گل آج کل بیمار ہے بے وسیلہ بات بن سکتی نہیں مل گئی کشتی تو دریا پار ہے آنسوؤں کا اور مطلب کچھ نہیں مختصر سی صورت اظہار ہے دوستی کا راز افشا کر گئی دشمنی بھی اک بڑا کردار ہے ہم سفینے کے لئے اک بوجھ ہیں ہم اگر ڈوبے تو بیڑا پار ہے زندگی کی رزم ...

    مزید پڑھیے

    دل میں رکھا تھا شرار غم کو آنسو جان کے

    دل میں رکھا تھا شرار غم کو آنسو جان کے ہاں مگر دیکھے عجب انداز اس طوفان کے اپنی مجبوری کے آئینے میں پہچانا تجھے یوں تو کتنے ہی وسیلے تھے تری پہچان کے زخم خوں آلود ہیں آنسو دھواں دیتے ہوئے یہ سہانے سے نمونے ہیں ترے احسان کے درد و غم کے تپتے صحرا کی کڑکتی دھوپ میں سو گیا ہوں میں ...

    مزید پڑھیے

    جینے کی ہے امید نہ مرنے کی آس ہے

    جینے کی ہے امید نہ مرنے کی آس ہے جس شخص کو بھی دیکھیے تصویر یاس ہے جب سے مسرتوں کی ہوئی جستجو مجھے میں بھی اداس ہوں مرا دل بھی اداس ہے لاشوں کا ایک ڈھیر ہے گھیرے ہوئے مجھے آباد ایک شہر مرے آس پاس ہے مجھ سے چھپا سکے گی نہ اپنے بدن کا کوڑھ دنیا مری نگاہ میں یوں بے لباس ہے یاران مے ...

    مزید پڑھیے

    بادہ کش ہوں نہ پارسا ہوں میں

    بادہ کش ہوں نہ پارسا ہوں میں کوئی سمجھائے مجھ کو کیا ہوں میں رات بکھرے ہوئے ستاروں کو دن کی باتیں سنا رہا ہوں میں میرے دل میں ہیں غم زمانے کے ساری دنیا کا ماجرا ہوں میں شعر اچھے برے ہوں میرے ہیں ذہن سے اپنے سوچتا ہوں میں کوئی منزل نہیں مری منزل کس دوراہے پہ آ گیا ہوں میں یوں ...

    مزید پڑھیے

    اک سایہ سا ہے ساتھ مگر آشنا نہیں

    اک سایہ سا ہے ساتھ مگر آشنا نہیں میں اس کو اور وہ مجھے پہچانتا نہیں اک واقعہ ہے یہ کہ وہ دل میں ہے جاگزیں اک حادثہ ہے یہ میں اسے جانتا نہیں یہ اور بات ہے کہ زمانہ ہے معترف میں خود تو اپنے آپ کو بھی مانتا نہیں کوئی ٹھکانہ میرا نہ میری کوئی زمیں ہوں میں بھی لا مکاں پہ کوئی مانتا ...

    مزید پڑھیے

تمام