باز گشت
گزشتہ رات میں خوابوں کی دنیا سے پلٹ آیا تو رستے میں تمہاری کھوج میں نکلی مری آواز رہ رہ کر سنائی دی
گزشتہ رات میں خوابوں کی دنیا سے پلٹ آیا تو رستے میں تمہاری کھوج میں نکلی مری آواز رہ رہ کر سنائی دی
رات بھر اس خریدے ہوئے جسم سے تم حرارت نچوڑو پیاس حرص و ہوس کی بجھاؤ اور جب صبح کے آئینے میں ابھرتا ہوا عکس دیکھو تو منہ موڑ لو کہ یہ تعلق تمہارے لئے باعث ننگ ہے
لفظ و معنی میں سنگھرش جاری ہے صدیوں سے جاری ہے جاری رہے خامشی بے حسی کیوں ہے
اپنی تعبیر کے صحرا میں جلے خوابوں کی اس راکھ کو تم راکھ کے ڈھیر ہی کیوں کہتے ہو بڑھ کے اس راکھ کے سینے میں اتر کر ڈھونڈھو اس کا امکان ہے تم راکھ کے اس ڈھیر میں بھی چند چنگاریاں رہ رہ کے دمکتی دیکھو اور شاید تم کو پھر سے جینے کا بہانہ مل جائے
یہ تند و تیز ہوا تری گلی مرے جنگل کو جو ملاتی ہے ہمارا ورثہ ہے
صبح سورج کی کرن کوچہ کوچہ تری امید میں بھٹکاتی ہے شام ہوتے ہی اندھیروں میں بکھر جاتی ہے ٹوٹتی آس کی مانند ترے درد کی لو رات بھر آنکھوں میں رہ رہ کے ابھر آتی ہے صبح سے پہلے دھلی آنکھوں میں بجھ کے رہ جاتی ہے گرم سانسوں کی طرح تجھ سے ملنے کی خلش آج بھی میری رگ و پے میں سلگتی ہے ...
جب بھی دھرتی کا کوئی حصہ تمہیں چپ سا دکھائی دے تو اس کی خامشی کو بے حسی کو نام مت دو سرد گہری خامشی کا کرب سمجھو اس کے سینے میں دبے لاوے کی زندہ دھڑکنوں کا عکس ممکن ہے تمہیں خود اپنے آدرشوں میں رہ رہ کر نظر آئے
تیرا احساس ہے کہ صحن خموشی میں ابھرتی ہوئی آہٹ کوئی