زندگی دشت بلا ہو جیسے
زندگی دشت بلا ہو جیسے تجھ کو پانے کی سزا ہو جیسے تیرے چہرے کا سمٹ کر کھلنا میری آنکھوں کی دعا ہو جیسے ایک دشمن سا ترا تن جانا مظہر خوے وفا ہو جیسے سب تری مدح پہ مجبور ہوئے حرف حق گوئی خطا ہو جیسے
زندگی دشت بلا ہو جیسے تجھ کو پانے کی سزا ہو جیسے تیرے چہرے کا سمٹ کر کھلنا میری آنکھوں کی دعا ہو جیسے ایک دشمن سا ترا تن جانا مظہر خوے وفا ہو جیسے سب تری مدح پہ مجبور ہوئے حرف حق گوئی خطا ہو جیسے
مشاہدہ نہ کوئی تجربہ نہ خواب کوئی تمام شعر و سخن حرف اجتناب کوئی اک انتظار مسلسل میں دن گزرتے ہیں کہ آتے آتے نہ آ جائے انقلاب کوئی تمام اہل زمانہ شکار حرص و ہوس کرے تو کیسے کرے اپنا احتساب کوئی نہ اس قدر غم و غصہ کو پی کے رہ جانا کہ صبر و ضبط کی عادت بنے عذاب کوئی تمام عمر ...
کوئی بادل تپش غم سے پگھلتا ہی نہیں اور دل ہے کہ کسی طرح بہلتا ہی نہیں سب یہاں بیٹھے ہیں ٹھٹھرے ہوئے جموں کو لئے دھوپ کی کھوج میں اب کوئی نکلتا ہی نہیں صرف اک میں ہوں جو ہر روز نیا لگتا ہوں ورنہ اس شہر میں تو کوئی بدلتا ہی نہیں
خون کی ایک ندی اور بہے گی شاید جنگ جاری ہے تو جاری ہی رہے گی شاید حاکم وقت سے بیزار یہ جاگی مخلوق جبر و بیداد کو اب کے نہ سہے گی شاید بڑھ کے اس دھند سے ٹکراتی ہوئی تیز ہوا تیرے ملنے کی کوئی بات کہے گی شاید
جاگے ضمیر ذہن کھلے تازگی ملے چھوٹے گہن کہ مجھ کو مری روشنی ملے کیوں ضبط و احتیاط میں گزرے تمام عمر اس منتشر دماغ کو بس برہمی ملے ہر اجنبی سے شہر میں ڈھونڈو خلوص دل ہر آشنائے شہر سے بے گانگی ملے جہلائے بد زبان بنیں رہبران قوم علمائے خوش کلام کو بس گم رہی ملے اے جذبۂ سپردگی ...
خود پہ الزام کیوں دھرو بابا زندگی موت ہے مرو بابا ریت خوابوں کی ہو کہ درد کے پھول اپنی جھولی میں کچھ بھرو بابا خوف کی دھند گھیر لے گی تمہیں کیا ضروری ہے تم ڈرو بابا جنگ جب ان سے لازمی ٹھہرے ان سے پھر جنگ ہی کرو بابا
ہوائے صبح نمو دشمن چمن کیسے شکار رشک و رقابت گل و سمن کیسے حصار شام و سحر اور ضبط اہل نفس نظام جبر میں بے بس یہ مرد و زن کیسے نہ کوئی بات ہوئی اور نہ کوئی دل ہی دکھا بجھے بجھے سے یہ شرکائے انجمن کیسے نہ کوئی ہاتھ اٹھا اور نہ کوئی زیر ہوا تو پھر بتاؤ کہ یہ چاک پیرہن کیسے کھلے تو ...
درد اس کا ابھر رہا ہوگا سارا نشہ اتر رہا ہوگا بند آنکھوں کی سرد جھیلوں میں عکس اس کا سنور رہا ہوگا رات سے صلح ہو رہی ہوگی اس کا احساس مر رہا ہوگا
کوئی بے نام خلش اکسائے کیا ضروری ہے تری یاد آئے تیری آنکھوں کے بلاوے کی کرن کیوں مری راہ گزر بن جائے زندگی دشت سفر دھوپ ہی دھوپ تیرے بن کیسے کہاں کے سائے
سرخ لاوے کی طرح تپ کے نکھرنا سیکھو سوکھی دھرتی کی دراروں سے ابھرنا سیکھو سینۂ دشت میں رہ رہ کے اترتے جاؤ یا پھر آندھی کی طرح کھل کے گزرنا سیکھو کوہساروں پہ چڑھو ابر رواں کی صورت آبشاروں کی طرح گر کے بکھرنا سیکھو مقتل شہر میں جب حرف وفا کھو جائے تم کسی چیخ کی مانند ابھرنا ...