Yaqoob Rahi

یعقوب راہی

یعقوب راہی کی غزل

    زندگی دشت بلا ہو جیسے

    زندگی دشت بلا ہو جیسے تجھ کو پانے کی سزا ہو جیسے تیرے چہرے کا سمٹ کر کھلنا میری آنکھوں کی دعا ہو جیسے ایک دشمن سا ترا تن جانا مظہر خوے وفا ہو جیسے سب تری مدح پہ مجبور ہوئے حرف حق گوئی خطا ہو جیسے

    مزید پڑھیے

    مشاہدہ نہ کوئی تجربہ نہ خواب کوئی

    مشاہدہ نہ کوئی تجربہ نہ خواب کوئی تمام شعر و سخن حرف اجتناب کوئی اک انتظار مسلسل میں دن گزرتے ہیں کہ آتے آتے نہ آ جائے انقلاب کوئی تمام اہل زمانہ شکار حرص و ہوس کرے تو کیسے کرے اپنا احتساب کوئی نہ اس قدر غم و غصہ کو پی کے رہ جانا کہ صبر و ضبط کی عادت بنے عذاب کوئی تمام عمر ...

    مزید پڑھیے

    کوئی بادل تپش غم سے پگھلتا ہی نہیں

    کوئی بادل تپش غم سے پگھلتا ہی نہیں اور دل ہے کہ کسی طرح بہلتا ہی نہیں سب یہاں بیٹھے ہیں ٹھٹھرے ہوئے جموں کو لئے دھوپ کی کھوج میں اب کوئی نکلتا ہی نہیں صرف اک میں ہوں جو ہر روز نیا لگتا ہوں ورنہ اس شہر میں تو کوئی بدلتا ہی نہیں

    مزید پڑھیے

    خون کی ایک ندی اور بہے گی شاید

    خون کی ایک ندی اور بہے گی شاید جنگ جاری ہے تو جاری ہی رہے گی شاید حاکم وقت سے بیزار یہ جاگی مخلوق جبر و بیداد کو اب کے نہ سہے گی شاید بڑھ کے اس دھند سے ٹکراتی ہوئی تیز ہوا تیرے ملنے کی کوئی بات کہے گی شاید

    مزید پڑھیے

    جاگے ضمیر ذہن کھلے تازگی ملے

    جاگے ضمیر ذہن کھلے تازگی ملے چھوٹے گہن کہ مجھ کو مری روشنی ملے کیوں ضبط و احتیاط میں گزرے تمام عمر اس منتشر دماغ کو بس برہمی ملے ہر اجنبی سے شہر میں ڈھونڈو خلوص دل ہر آشنائے‌ شہر سے بے گانگی ملے جہلائے بد زبان بنیں رہبران قوم علمائے خوش کلام کو بس گم رہی ملے اے جذبۂ سپردگی ...

    مزید پڑھیے

    خود پہ الزام کیوں دھرو بابا

    خود پہ الزام کیوں دھرو بابا زندگی موت ہے مرو بابا ریت خوابوں کی ہو کہ درد کے پھول اپنی جھولی میں کچھ بھرو بابا خوف کی دھند گھیر لے گی تمہیں کیا ضروری ہے تم ڈرو بابا جنگ جب ان سے لازمی ٹھہرے ان سے پھر جنگ ہی کرو بابا

    مزید پڑھیے

    ہوائے صبح نمو دشمن چمن کیسے

    ہوائے صبح نمو دشمن چمن کیسے شکار‌ رشک و رقابت گل و سمن کیسے حصار شام و سحر اور ضبط اہل نفس نظام جبر میں بے بس یہ مرد و زن کیسے نہ کوئی بات ہوئی اور نہ کوئی دل ہی دکھا بجھے بجھے سے یہ شرکائے انجمن کیسے نہ کوئی ہاتھ اٹھا اور نہ کوئی زیر ہوا تو پھر بتاؤ کہ یہ چاک پیرہن کیسے کھلے تو ...

    مزید پڑھیے

    درد اس کا ابھر رہا ہوگا

    درد اس کا ابھر رہا ہوگا سارا نشہ اتر رہا ہوگا بند آنکھوں کی سرد جھیلوں میں عکس اس کا سنور رہا ہوگا رات سے صلح ہو رہی ہوگی اس کا احساس مر رہا ہوگا

    مزید پڑھیے

    کوئی بے نام خلش اکسائے

    کوئی بے نام خلش اکسائے کیا ضروری ہے تری یاد آئے تیری آنکھوں کے بلاوے کی کرن کیوں مری راہ گزر بن جائے زندگی دشت سفر دھوپ ہی دھوپ تیرے بن کیسے کہاں کے سائے

    مزید پڑھیے

    سرخ لاوے کی طرح تپ کے نکھرنا سیکھو

    سرخ لاوے کی طرح تپ کے نکھرنا سیکھو سوکھی دھرتی کی دراروں سے ابھرنا سیکھو سینۂ دشت میں رہ رہ کے اترتے جاؤ یا پھر آندھی کی طرح کھل کے گزرنا سیکھو کوہساروں پہ چڑھو ابر رواں کی صورت آبشاروں کی طرح گر کے بکھرنا سیکھو مقتل شہر میں جب حرف وفا کھو جائے تم کسی چیخ کی مانند ابھرنا ...

    مزید پڑھیے