وسیم نادر کی غزل

    سلیقے سے اگر توڑیں تو کانٹے ٹوٹ جاتے ہے

    سلیقے سے اگر توڑیں تو کانٹے ٹوٹ جاتے ہے مگر افسوس یہ ہے پھول پہلے ٹوٹ جاتے ہے محبت بوجھ بن کر ہی بھلے رہتی ہو کاندھوں پر مگر یہ بوجھ ہٹتا ہے تو کاندھے ٹوٹ جاتے ہیں بچھڑ کر آپ سے یہ تجربہ ہو ہی گیا آخر میں اکثر سوچتا تھا لوگ کیسے ٹوٹ جاتے ہے مری اوقات ہی کیا ہے میں اک ننھا سا آنسو ...

    مزید پڑھیے

    خواب میں ہاتھ چھڑاتی ہوئی تقدیر کا دکھ

    خواب میں ہاتھ چھڑاتی ہوئی تقدیر کا دکھ آنکھ سے لپٹا ہے اب تک اسی تعبیر کا دکھ کوششیں کر کے بہرحال مصور ہارا شوخ رنگوں میں چھپا ہی نہیں تصویر کا دکھ اس کی آنکھوں میں نمی ختم نہیں ہو سکتی پڑھ لیا جس نے بھی ہنستی ہوئی تحریر کا دکھ قید خانے میں یہی سوچ کے واپس آیا مجھ کو معلوم ہے ...

    مزید پڑھیے

    سفر تھا تھوڑا مگر کتنے موڑ آئے تھے

    سفر تھا تھوڑا مگر کتنے موڑ آئے تھے کئی کہانیاں ہم ان میں چھوڑ آئے تھے میں ان پرندوں کو روتا ہوں جو فلک کے لیے زمیں سے اپنا تعلق ہی توڑ آئے تھے سوال سوکھے ہوئے آنسوؤں کا الجھا رہا حساب ویسے تو ہم سارا جوڑ آئے تھے کوئی ملال ہمیں اب رلا نہیں سکتا ہم ایک درد پہ آنکھیں نچوڑ آئے ...

    مزید پڑھیے

    حیران مہربانو کے رومال ہو گئے

    حیران مہربانو کے رومال ہو گئے آنسو کمال ضبط سے جب لال ہو گئے یہ دیکھنا ہے کس گھڑی دفنایا جاؤں گا مجھ کو مرے ہوئے تو کئی سال ہو گئے تم ساری عمر کیسے سنبھالو گے نفرتیں ہم تو ذرا سی دیر میں بے حال ہو گئے سائل کو ایک لفظ محبت نہ مل سکا حیرت ہے سارے لوگ ہی کنگال ہو گئے دل کے پرندے اڑ ...

    مزید پڑھیے

    اس کو مری تڑپ کا گماں تک نہیں ہوا

    اس کو مری تڑپ کا گماں تک نہیں ہوا میں اس طرح جلا کہ دھواں تک نہیں ہوا یہ چاہتے تھے موت ہی ہم کو جدا کرے افسوس اپنا ساتھ وہاں تک نہیں ہوا تم نے تو اپنے درد کے قصے بنا لئے ہم سے تو اپنا درد بیاں تک نہیں ہوا حیرت ہے وہ بھی شہر بسانے کی ضد میں ہے تعمیر جس سے اپنا مکاں تک نہیں ہوا تصویر ...

    مزید پڑھیے

    پرندے گھونسلوں سے کہہ کے یہ باہر نکل آئے

    پرندے گھونسلوں سے کہہ کے یہ باہر نکل آئے ہمیں اڑنے دیا جائے ہمارے پر نکل آئے سفر میں زندگی کے میں ذرا سا لڑکھڑایا تھا مجھے ٹھوکر لگانے پھر کئی پتھر نکل آئے محبت سے کسی نے جب سفر کی مشکلیں پوچھیں کئی کانٹے ہمارے پاؤں سے باہر نکل آئے بہت سے راز بھی آئیں گے عالی جاہ پھر باہر خفا ...

    مزید پڑھیے

    ہزار زخم ملے پھر بھی مسکراتے ہوئے

    ہزار زخم ملے پھر بھی مسکراتے ہوئے گزر گیا ہے کوئی راستہ بناتے ہوئے وہ پوچھ بیٹھا تھا مجھ سے سبب بچھڑنے کا زبان کانپ گئی اس کو سچ بتاتے ہوئے یہ کس گناہ کا احساس ہے مرے دل کو نگاہ اٹھتی نہیں روشنی میں آتے ہوئے عذاب پوچھے کوئی ہم سے کم لباسی کا تمام عمر کٹی ہے بدن چھپاتے ...

    مزید پڑھیے

    کبھی کپڑے بدلتا ہے کبھی لہجہ بدلتا ہے

    کبھی کپڑے بدلتا ہے کبھی لہجہ بدلتا ہے مگر ان کوششوں سے کیا کہیں شجرہ بدلتا ہے تمہارے بعد اب جس کا بھی جی چاہے مجھے رکھ لے جنازہ اپنی مرضی سے کہاں کاندھا بدلتا ہے رہائی مل تو جاتی ہے پرندے کو مگر اتنی صفائی کی غرض سے جب کبھی پنجرہ بدلتا ہے مری آنکھوں کو پہلی آخری حد ہے ترا ...

    مزید پڑھیے