اس کو مری تڑپ کا گماں تک نہیں ہوا
اس کو مری تڑپ کا گماں تک نہیں ہوا
میں اس طرح جلا کہ دھواں تک نہیں ہوا
یہ چاہتے تھے موت ہی ہم کو جدا کرے
افسوس اپنا ساتھ وہاں تک نہیں ہوا
تم نے تو اپنے درد کے قصے بنا لئے
ہم سے تو اپنا درد بیاں تک نہیں ہوا
حیرت ہے وہ بھی شہر بسانے کی ضد میں ہے
تعمیر جس سے اپنا مکاں تک نہیں ہوا
تصویر تیری لفظوں سے بن سکتی تھی مگر
ہم سے ہی تیرا ذکر یہاں تک نہیں ہوا