خواب میں ہاتھ چھڑاتی ہوئی تقدیر کا دکھ

خواب میں ہاتھ چھڑاتی ہوئی تقدیر کا دکھ
آنکھ سے لپٹا ہے اب تک اسی تعبیر کا دکھ


کوششیں کر کے بہرحال مصور ہارا
شوخ رنگوں میں چھپا ہی نہیں تصویر کا دکھ


اس کی آنکھوں میں نمی ختم نہیں ہو سکتی
پڑھ لیا جس نے بھی ہنستی ہوئی تحریر کا دکھ


قید خانے میں یہی سوچ کے واپس آیا
مجھ کو معلوم ہے تنہا پڑی زنجیر کا دکھ


محفل شعر و سخن یوں ہی رہے باغ و بہار
نسل در نسل چلے میر تقی میرؔ کا دکھ


ہاتھ کٹ جانے پہ شاید نہیں ہوتا نادرؔ
جو مرے دل کو ہے ٹوٹی ہوئی شمشیر کا دکھ