سفر تھا تھوڑا مگر کتنے موڑ آئے تھے

سفر تھا تھوڑا مگر کتنے موڑ آئے تھے
کئی کہانیاں ہم ان میں چھوڑ آئے تھے


میں ان پرندوں کو روتا ہوں جو فلک کے لیے
زمیں سے اپنا تعلق ہی توڑ آئے تھے


سوال سوکھے ہوئے آنسوؤں کا الجھا رہا
حساب ویسے تو ہم سارا جوڑ آئے تھے


کوئی ملال ہمیں اب رلا نہیں سکتا
ہم ایک درد پہ آنکھیں نچوڑ آئے تھے


غبار چھا گیا ہر چیز پر تو حیرت کیا
دریچے بھی تو کھلے ہم ہی چھوڑ آئے تھے