Wajid Sahri

واجد سحری

واجد سحری کی غزل

    جس طرف لے کے ہوا جاتی ہے چل دیتے ہیں

    جس طرف لے کے ہوا جاتی ہے چل دیتے ہیں پھول چن لیتے ہیں کانٹوں کو مسل دیتے ہیں خیر خواہی کے طلب گار نہیں ہم لوگو کوئی مشکل ہو تو حالات کا حل دیتے ہیں ظالموں کو بھی سکھاتے ہیں محبت کرنی دل کو احساس کو ذہنوں کو بدل دیتے ہیں خاک صحرا کی نہیں عقل اڑایا کرتی دعوت فکر و نظر دشت و جبل ...

    مزید پڑھیے

    حسن بجائے خود پردہ ہے اس پردے کو اٹھائے کون

    حسن بجائے خود پردہ ہے اس پردے کو اٹھائے کون دیکھ نہیں سکتی آنکھ اس کو بدلے اپنی رائے کون ہاتھ نشے کا آنکھوں پر ہے اب یہ ہاتھ ہٹائے کون ساقی کے زانو پر سر ہے ہوش میں آئے تو آئے کون شہر حسن کا رہنے والا لقب ہے مجھ پردیسی کا میرے عشق کو خودداری کو اپنے پاس بٹھائے کون راہگزر کی گرمی ...

    مزید پڑھیے

    سکوں سے کون بھلا پیار کر کے رہتا ہے

    سکوں سے کون بھلا پیار کر کے رہتا ہے لگے یہ چوٹ تو پتھر سے خون بہتا ہے سنے بغور چبھن کو سماعت احساس وہ بات گل نہیں کہتا جو خار کہتا مجھے بھی کچے گھڑے پر بٹھا دیا جائے مری رگوں میں بھی دریائے عشق بہتا ہے دکھائے تو کوئی قاتل کے سامنے جا کر یہ میرا دل ہے جو ہنس ہنس کے وار سہتا ...

    مزید پڑھیے

    سامنے سے مرے کترا کے گئے ہیں ایسے

    سامنے سے مرے کترا کے گئے ہیں ایسے میں نے دیکھا نہیں جاتے ہوئے ان کو جیسے مشورے دیتے رہے جو مجھے مخلص کی طرح کیا کہوں ان سے بھی کھاتا رہا دھوکے کیسے سر سے پیروں تلک اک آلۂ موسیقی ہیں واقفیت نہیں کوئی جنہیں سر سے لے سے بیچ دو سارا جہاں بھی تو نہیں بھر سکتا میرے کشکول میں آ سکتے ...

    مزید پڑھیے

    صحراؤں میں بھی کوئی ہم راز گلوں کا ہے

    صحراؤں میں بھی کوئی ہم راز گلوں کا ہے گلشن میں کوئی رہ کر خوشبو کو ترستا ہے اک دن تو کھلے گا یہ دروازۂ دل تیرا اب دیکھنا ہے کب تک احساس بھٹکتا ہے نیندوں کے مکاں میں ہے جس دن سے ترا چہرہ کھلتی ہیں یہ آنکھیں تو اک خوف سا لگتا ہے اک روز یہی کرچیں بینائیاں بخشیں گی یہ شیشۂ دل تم نے ...

    مزید پڑھیے

    قدم سے خاک بھی اڑی تو چاندنی چھٹک گئی

    قدم سے خاک بھی اڑی تو چاندنی چھٹک گئی جدھر سے وہ گزر گئے وہ رہ گزر مہک گئی ہوائے غم نے برگ خشک کی طرح ہلا دیا چراغ کی طرح یہ زندگی بھڑک بھڑک گئی ترا خیال راہ میں چراغ لے کر آ گیا اٹھا کچھ ایسا دل میں درد زندگی چمک گئی اس ایک بوند میں خزانۂ قرار تھا مرا وہ ایک بوند خود بہ خود جو ...

    مزید پڑھیے

    نادان ہوشیار بنے جن کے روپ سے

    نادان ہوشیار بنے جن کے روپ سے وہ بھی جھلس گئے ہیں حوادث کی دھوپ سے ہم راہ اجنبی کے بہت دور تک گیا چہرہ تھا ملتا جلتا ذرا ان کے روپ سے کیسی ہوا یہ آئی گلستاں سے گرم گرم کیا پھول شعلے بن گئے ساون کی دھوپ سے کیا کیا نہ حادثے مرے دل پر گزر گئے لیکن شگفتگی نہ گئی رنگ روپ سے واجدؔ اسے ...

    مزید پڑھیے

    پیار کے بندھن رشتے دیکھو

    پیار کے بندھن رشتے دیکھو ہاتھ میں کچے دھاگے دیکھو دیکھنا ہے غم میرا اگر ان کو مجھ پر ہنستے دیکھو انگلیاں چھوتے ہی جل جائیں پھول کے اندر شعلے دیکھو ہوتی ہے کیسے رسوائی ان کی گلی میں جا کے دیکھو چلے گی تیرے جسم کی ناؤ دریا کو ساحل سے دیکھو اب کیوں غرق ہے اشکوں میں کس نے کہا تھا ...

    مزید پڑھیے