سکوں سے کون بھلا پیار کر کے رہتا ہے
سکوں سے کون بھلا پیار کر کے رہتا ہے
لگے یہ چوٹ تو پتھر سے خون بہتا ہے
سنے بغور چبھن کو سماعت احساس
وہ بات گل نہیں کہتا جو خار کہتا
مجھے بھی کچے گھڑے پر بٹھا دیا جائے
مری رگوں میں بھی دریائے عشق بہتا ہے
دکھائے تو کوئی قاتل کے سامنے جا کر
یہ میرا دل ہے جو ہنس ہنس کے وار سہتا ہے
جبھی تو جاگنا پڑتا ہے رات بھر مجھ کو
چراغ سا مرے سینے میں جلتا رہتا ہے
ذخیرہ آنسوؤں کا اس میں کس قدر ہوگا
جو تیرے زہر بھرے قہقہوں کو سہتا ہے
ضرور اپنے زمانے کا ہے ولی واجدؔ
جو اپنے جسم کو بھی اک فرار کہتا ہے