حسن بجائے خود پردہ ہے اس پردے کو اٹھائے کون

حسن بجائے خود پردہ ہے اس پردے کو اٹھائے کون
دیکھ نہیں سکتی آنکھ اس کو بدلے اپنی رائے کون


ہاتھ نشے کا آنکھوں پر ہے اب یہ ہاتھ ہٹائے کون
ساقی کے زانو پر سر ہے ہوش میں آئے تو آئے کون


شہر حسن کا رہنے والا لقب ہے مجھ پردیسی کا
میرے عشق کو خودداری کو اپنے پاس بٹھائے کون


راہگزر کی گرمی تو بارش سے کم ہو جائے گی
سینے میں جو آگ لگی ہے اس پر قابو پائے کون


خاک میں مل گیا خون ہمارا اس نے پتھر مارا تو
زخم بھی اس کا دیا ہوا دھن ہے اس دھن کو ٹھکرائے کون


آنکھ سے آنکھ ملانے سے بھی جو کترائے دوست نہیں
آتے جاتے ان لمحوں کو اپنے گھر ٹھہرائے کون


جسم کو جلا کر واجدؔ اپنا روشنیوں میں رہتے ہیں
ٹوٹی پھوٹی دیواروں پر رکھے اپنے سائے کون