جس طرف لے کے ہوا جاتی ہے چل دیتے ہیں

جس طرف لے کے ہوا جاتی ہے چل دیتے ہیں
پھول چن لیتے ہیں کانٹوں کو مسل دیتے ہیں


خیر خواہی کے طلب گار نہیں ہم لوگو
کوئی مشکل ہو تو حالات کا حل دیتے ہیں


ظالموں کو بھی سکھاتے ہیں محبت کرنی
دل کو احساس کو ذہنوں کو بدل دیتے ہیں


خاک صحرا کی نہیں عقل اڑایا کرتی
دعوت فکر و نظر دشت و جبل دیتے ہیں


کف افسوس تو آتے نہیں ملنا ہم کو
اپنے ہی دل کا لہو ہاتھ پہ مل دیتے ہیں


چاہنے والوں پہ ہرگز نہ بھروسہ کرنا
زندگی مانگنے والوں کو اجل دیتے ہیں


شاعروں کو کوئی عنوان غزل دے واجدؔ
ہم غزل کہہ کے بھی پیغام عمل دیتے ہیں