قدم سے خاک بھی اڑی تو چاندنی چھٹک گئی
قدم سے خاک بھی اڑی تو چاندنی چھٹک گئی
جدھر سے وہ گزر گئے وہ رہ گزر مہک گئی
ہوائے غم نے برگ خشک کی طرح ہلا دیا
چراغ کی طرح یہ زندگی بھڑک بھڑک گئی
ترا خیال راہ میں چراغ لے کر آ گیا
اٹھا کچھ ایسا دل میں درد زندگی چمک گئی
اس ایک بوند میں خزانۂ قرار تھا مرا
وہ ایک بوند خود بہ خود جو آنکھ سے چھلک گئی
دلوں میں جب جدائی تھی تو کوئی جانتا نہ تھا
زبان پر جب آئی تھی تو بات دور تک گئی
جمال دل فریب سے ہٹی تھی اک ذرا نظر
وہ ہنس کے پوچھنے لگے نگاہ شوق تھک گئی
تعلقات کیا نہیں ہوا سے واجدؔ آپ کے
چلی جو ساتھ آپ کے تو راستہ بھٹک گئی