وہ دریا ہے کوئی صحرا نہیں ہے
وہ دریا ہے کوئی صحرا نہیں ہے
مگر پرجوش بھی لگتا نہیں ہے
تجھے تیرا سمندر ہو مبارک
ہماری پیاس سے اچھا نہیں ہے
وہی بارش کا چرچا کر رہے ہیں
بدن جن کا کبھی بھیگا نہیں ہے
کبھی دیکھا نہیں ہے ہم نے ورنہ
زمیں کی وسعتوں میں کیا نہیں ہے
ابھی سے آ گئی ہے رات ملنے
ابھی تو چاند بھی نکلا نہیں ہے
نگاہیں تک رہی ہیں گھونسلے کی
پرندہ لوٹ کر آیا نہیں ہے
میں رکنے کے لئے آیا تھا گھر میں
کسی نے کیوں مجھے روکا نہیں ہے
کہاں اسرار اپنے پا سکے گا
ابھی خود میں کوئی بھٹکا نہیں ہے
سبھی کردار اچھے لگ رہیں ہیں
کہانی میں کوئی سچا نہیں ہے
مہ کنعاں ہے عہد نارسائی
ابھی بازار تک پہنچا نہیں ہے
زمیں پر زور ہے جادوگروں کا
عصائے حضرت موسیٰؑ نہیں ہے
سمندر تو متھے جاتی ہے دنیا
کوئی بھی وش مگر پیتا نہیں ہے