Vinod Kumar Tripathi Bashar

ونود کمار ترپاٹھی بشر

ونود کمار ترپاٹھی بشر کی نظم

    کاش

    مجھ میں اے یار مرے کوئی کمالات نہ دیکھ خواب وہ ہوں جو کبھی بھی نہ حقیقت میں ڈھلا کوئی ساحل نہیں منزل نہ کوئی معجزہ ہوں اہل بازار کا چاہا ہوا ساماں بھی کہاں جو لبوں پر ہو زمانے کے نہ وہ نغمہ ہوں میرے کہنے سے نہ رت کوئی سہانی آئے میری چاہت سے نہ کلیوں پہ جوانی چھائے میرے جذبوں میں ...

    مزید پڑھیے

    کون

    کون ہے جو مجھے آج چھو کر گیا کس کا میں باتوں ہی باتوں میں ہو گیا میری انگڑائیوں کا سبب کون ہے ذہن کس خواب میں آج کل کھو گیا کون ہے جو مجھے آج چھو کر گیا دھیرے سے چپکے سے بات کس کی چلی کس کے لب پہ اچانک نظر ٹک گئی ٹھہرے ٹھہرے قدم کیوں لگے بھاگنے کس کی باتوں پہ ہم دل لگے تھامنے کون ...

    مزید پڑھیے

    تو

    کیا کہوں تجھ کو میں کیا کہہ کے پکاروں تجھ کو جیسے قاصد کوئی اک پیار میں ڈوبے خط کو بند دروازے کے پلوں میں پھنسا دیتا ہے اور خط دیکھ کے اک عشق میں پابند نظر دل معشوق کی ہر بات سمجھ جاتی ہے تو کھنچی آتی ہے یوں ہولے سے میری جانب خانۂ دل میں اسی پیار بھرے خط کی طرح حسرت چشم مری تجھ میں ...

    مزید پڑھیے

    جیسے

    آج قاصد کو ادھر سے جو گزرتے دکھا مجھ کو ایسا لگا جیسے کہ ترا خط آیا تو نہیں پھر بھی چلا کرتی ہے دنیا میری اب تو محسوس نہیں ہوتی کبھی تیری کمی جانے دہلیز پہ اترا تھا وہ کس کا سایہ یوں لگا جیسے کہ اپنا کوئی واپس آیا تو مجھے یاد نہ آئے کبھی ایسا نہ ہوا پھر بھی رو رو کے گزر ہوتا ہو یہ ...

    مزید پڑھیے

    چاند چھپنے لگا

    چلو گھر چلیں چاند چھپنے لگا ہے سمندر بھی لگتا ہے سونے چلا ہے ہواؤں کی رفتار تھم سی گئی ہے نہ آئے گا کوئی سحر ہو چلی ہے نہ اب پاس میں کوئی پتھر بچا ہے نہ اب بازوؤں میں اثر رہ گیا ہے سڑک کی سبھی روشنی بجھ گئی ہے اندھیرا ہٹا راہ دکھنے لگی ہے نہ آہٹ ہے کوئی نہ کوئی بھرم ہے تھکی آرزو اور ...

    مزید پڑھیے

    وعدہ

    رکھ تو لی بات تری اب نہ کبھی بولوں گا اب تصور میں کبھی تجھ کو نہ میں گھولوں گا اب نہ پھر پاؤں کبھی تیری طرف جائیں گے اب نہ ہاتھوں کے ارادے تجھے چھو پائیں گے رکھ تو لی بات تری اب نہ کبھی بولوں گا اب نہ ہونٹوں پہ بلا وجہ ہنسی چھائے گی اب نہ چہرے پہ کوئی شکل اتر پائے گی اب نہ زلفوں ...

    مزید پڑھیے

    آدمی ہوں

    لوگ کیوں ڈھونڈیں خدائی مجھ میں آدمی ہوں میں فرشتہ تو نہیں میں مچلتا ہوں گھروندوں کے لیے اونچی نیچی سی پسندوں کے لیے جانا انجانا سفر ہے اپنا چند خوابوں کا نگر ہے اپنا کوئی ڈھونڈے کیوں برائی مجھ میں آدمی ہوں میں فرشتہ تو نہیں پیروں میں پڑتیں کبھی زنجیریں پھر کبھی طوفاں بنیں ...

    مزید پڑھیے