آدمی ہوں

لوگ کیوں ڈھونڈیں خدائی مجھ میں
آدمی ہوں میں فرشتہ تو نہیں


میں مچلتا ہوں گھروندوں کے لیے
اونچی نیچی سی پسندوں کے لیے


جانا انجانا سفر ہے اپنا
چند خوابوں کا نگر ہے اپنا


کوئی ڈھونڈے کیوں برائی مجھ میں
آدمی ہوں میں فرشتہ تو نہیں


پیروں میں پڑتیں کبھی زنجیریں
پھر کبھی طوفاں بنیں تدبیریں


ٹوٹ جاتا ہوں کبھی دو پل میں
ہوں میں چٹان کبھی مشکل میں


کوئی ڈھونڈے کیوں صفائی مجھ میں
آدمی ہوں میں فرشتہ تو نہیں