کون

کون ہے جو مجھے آج چھو کر گیا
کس کا میں باتوں ہی باتوں میں ہو گیا


میری انگڑائیوں کا سبب کون ہے
ذہن کس خواب میں آج کل کھو گیا


کون ہے جو مجھے آج چھو کر گیا
دھیرے سے چپکے سے بات کس کی چلی


کس کے لب پہ اچانک نظر ٹک گئی
ٹھہرے ٹھہرے قدم کیوں لگے بھاگنے


کس کی باتوں پہ ہم دل لگے تھامنے
کون ہے جو مجھے آج چھو کر گیا


میری آنکھوں میں تصویر جس کی بنی
شرم کی چادروں میں وہ آ کے چھپی
آج کچھ یوں سمٹنے لگی ہے ڈگر
جیسے منزل نے خود طے کیا ہو سفر
کون ہے جو مجھے آج چھو کر گیا