جیسے

آج قاصد کو ادھر سے جو گزرتے دکھا
مجھ کو ایسا لگا جیسے کہ ترا خط آیا


تو نہیں پھر بھی چلا کرتی ہے دنیا میری
اب تو محسوس نہیں ہوتی کبھی تیری کمی


جانے دہلیز پہ اترا تھا وہ کس کا سایہ
یوں لگا جیسے کہ اپنا کوئی واپس آیا


تو مجھے یاد نہ آئے کبھی ایسا نہ ہوا
پھر بھی رو رو کے گزر ہوتا ہو یہ بھی نہ ہوا


جانے کیا سوچ کے ان آنکھوں میں آنسو آئے
آج نازک سے کئی لمحے مجھے یاد آیا


آج قاصد کو ادھر سے جو گزرتے دیکھا
مجھ کو ایسا لگا جیسے کہ تیرا خط آیا