تسنیم حسن کی غزل

    غلط کہ میرے سر دار حوصلے ٹوٹے

    غلط کہ میرے سر دار حوصلے ٹوٹے صلیب جسم سے سانسوں کے رابطے ٹوٹے یہ کیسے رخ پہ بنائے مکان لوگوں نے ہوا چلی ہے تو گھر گھر کے آئنے ٹوٹے نہ جانے کس کی نظر روشنی کی دشمن تھی چراغ جس میں جلے تھے وہ طاقچے ٹوٹے قبیلے اپنی ہی بستی کے جنگجو نکلے خلوص و صدق و محبت کے ضابطے ٹوٹے زمین ڈوب ...

    مزید پڑھیے

    وہ چہرہ جو میری چاہت رہا ہے

    وہ چہرہ جو میری چاہت رہا ہے مگر ایسا کہیں دیکھا سنا ہے خود اپنی ذات کا میری انا سے بڑی مشکل سے سمجھوتہ ہوا ہے اجالے سب سمیٹے جا چکے ہیں مرے رستے میں اک ٹوٹا دیا ہے مرا اپنا اثاثہ کچھ نہیں ہے مرا تو نام بھی رکھا ہوا ہے میں کن لمحوں کے پیچھے بھاگتی ہوں پرندے کا مجھے سایہ ملا ...

    مزید پڑھیے

    دل سے تیری یاد کا اک پل جدا ہوتا نہیں

    دل سے تیری یاد کا اک پل جدا ہوتا نہیں ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں میں ہی میں ہوتی ہوں اپنے عالم امکان میں تو ہی تو ہوتا ہے کوئی دوسرا ہوتا نہیں صبر ہی کرنا ہے اس کا شہر ہے اور شہر میں واقعہ ہوتا نہیں یا حادثہ ہوتا نہیں غیر تو پھر غیر ہے کیا وقت کو الزام دوں جب مرا ...

    مزید پڑھیے

    گھر میرا تھا اور اس میں بسر تم نے کیا ہے

    گھر میرا تھا اور اس میں بسر تم نے کیا ہے آنگن کو میرے راہ گزر تم نے کیا ہے ذروں کو میرے شمس و قمر تم نے کیا ہے آفاق کو تا حد نظر تم نے کیا ہے اب اس کی گھنی چھاؤں ہی سرمایۂ جاں ہے احساس کے پودے کو شجر تم نے کیا ہے دیوار پہ اک جلتا دیا رکھا تھا میں نے رخ ساری ہواؤں کا ادھر تم نے کیا ...

    مزید پڑھیے

    چہروں پہ کھلی دھوپ سجا کر جو گیا ہے

    چہروں پہ کھلی دھوپ سجا کر جو گیا ہے اب شہر میں سورج بھی اسے ڈھونڈ رہا ہے میں خوش ہوں بہت کانچ کی پوشاک پہن کر پتھر سے جو ٹکرائی ہے وہ میری صدا ہے وہ شخص جو آئینہ تھا چہروں کے جہاں میں بکھرا تو کسی سے بھی سمیٹا نہ گیا ہے گھر اس کا ہے دروازہ بھی دستک بھی اسی کی آواز کے رشتوں میں وہی ...

    مزید پڑھیے

    مٹی ہوں بھیگنے دے مرے کوزہ گر ابھی

    مٹی ہوں بھیگنے دے مرے کوزہ گر ابھی مصروف گردشوں میں ہے دست ہنر ابھی خود بڑھ کے قتل گاہ میں قاتل کے سامنے مقتول ہو گیا ہے بہت با اثر ابھی چہروں بھری کتاب میں ملتی نہیں ہے اب دیکھی تھی تیری شکل کسی صفحہ پر ابھی چمکے تھے لفظ تیری سماعت کی دھوپ میں حسن خیال تھا کہ ہوا معتبر ...

    مزید پڑھیے

    تیری مثال آنکھوں میں تمثیل ہو گئی

    تیری مثال آنکھوں میں تمثیل ہو گئی دھڑکن ہزار رنگوں میں تبدیل ہو گئی تیری نظر کی چھاؤں تو بادل سے کم نہ تھی پھیلی مری زمین پہ میں جھیل ہو گئی کیسی بدن کی قربتیں اور کیسی چاہ وصل جب روح تیری روح میں تحلیل ہو گئی چوما جو اس نے ہاتھ تو محسوس یوں ہوا تقدیر زندگی تری تکمیل ہو ...

    مزید پڑھیے