جیسے خوشبو کو سلیقے سے صبا لے جائے

جیسے خوشبو کو سلیقے سے صبا لے جائے
کوئی ایسے ہی مجھے مجھ سے چھڑا لے جائے


مرحلہ وار بکھرتی ہی گئی ہوں خود میں
اب جدھر چاہے ہوا مجھ کو اڑا لے جائے


جاذبیت ہے بڑی رونق دنیا تجھ میں
اک غزال آئے مجھے سب سے بچا لے جائے


ہائے وہ گرمیٔ بازار منا کہ مجھے
ہر طلب خواب کے ناکے پہ بٹھا لے جائے


اب وہ چہرہ نہ خد و خال ہیں باقی میرے
کوئی تصویر سے سب رنگ چرا لے جائے


روز آتا ہے مری خلوت جاں میں کوئی
یاد کی بھیڑ میں چپکے سے اٹھا لے جائے


حسن مرہون تماشائے تمنا اس کا
جو کہ ہاتھوں سے مرے رنگ حنا لے جائے