طوق گردن سے نہ زنجیر سے جی ڈرتا ہے

طوق گردن سے نہ زنجیر سے جی ڈرتا ہے
ہاں تری زلف گرہ گیر سے جی ڈرتا ہے


دل تو قائل ہے ترے لطف و کرم کا لیکن
اپنی پھوٹی ہوئی تقدیر سے جی ڈرتا ہے


آپ کی چپ سے الجھتی ہے طبیعت اکثر
آپ کی شوخیٔ تقریر سے جی ڈرتا ہے


کہیں یہ بھی نہ ہو منشائے مشیت کے خلاف
اب تو ہر سعی سے تدبیر سے جی ڈرتا ہے


پہلے جو حرف بصد شوق زباں پر آیا
اب اسی حرف کی تفسیر سے جی ڈرتا ہے


منہ سے بولے نہ کبھی سر سے جو کھیلے نہ کبھی
تجھ سے بڑھ کر تری تصویر سے جی ڈرتا ہے


اس کا انجام بھی آخر کہیں تخریب نہ ہو
اس لئے ہر نئی تعمیر سے جی ڈرتا ہے


پہلے کچھ خواب تھے ایسے کہ تھے دہشت کا سبب
اب تو ہر خواب کی تعبیر سے جی ڈرتا ہے


عمر کی عمر گناہوں میں بسر کر ڈالی
اور اب آپ کا تعزیر سے جی ڈرتا ہے


صبر پڑ جائے نہ تجھ پر کہیں مظلوموں کا
ان کی فریاد کی تاثیر سے جی ڈرتا ہے


اس کے پردے میں بڑی تیرگیاں ہیں طالبؔ
اس لئے کثرت تنویر سے جی ڈرتا ہے