Tabish Dehlvi

تابش دہلوی

تابش دہلوی کی غزل

    باغ میں جوشِ بہار آخر یہاں تک آ گیا

    باغ میں جوشِ بہار آخر یہاں تک آ گیا بڑھتے بڑھتے شعلہ گُل آشیاں تک آ گیا اک جہاں اس حادثہ سے بے خرب ہے اور یہاں دل میں ڈوبا نشترغم اور جاں تک آ گیا اس کے آگے اب ایر کارواں کام ہی گرتا پڑتا میں سواد کارواں تک آگیا لاکھ منزل سے ہوں آگے پھر ی اے جوش طلب مڑکے دیکھوں تو کہ میںخر کہاں ...

    مزید پڑھیے

    یوں نقاب رخ مقابل سے اٹھی

    یوں نقاب رخ مقابل سے اٹھی چشم صد نظارہ مشکل سے اٹھی بازگشت شور غرقابی سہی کوئی تو آواز ساحل سے اٹھی قافلے ہیں کتنے درماندہ خرام گرد راہوں سے نہ منزل سے اٹھی تھام کر دل کیا اٹھے ارباب درد اک قیامت تیری محفل سے اٹھی سر سے بھی گزری ہے طوفاں کی طرح جب بھی کوئی موج خوں دل سے ...

    مزید پڑھیے

    ایک جلوہ بصد انداز نظر دیکھ لیا

    ایک جلوہ بصد انداز نظر دیکھ لیا تجھ کو ہی دیکھا کئے تجھ کو اگر دیکھ لیا جیسے سر پھوڑ کے مل جائے گی زنداں سے نجات کیا جنوں نے کوئی دیوار میں در دیکھ لیا باز ہے آج تلک دیدۂ حیراں کی طرح دشت وحشت نے کسے خاک بسر دیکھ لیا جرم نظارہ کی پاتا ہے سزا دل اب تک اہل دل دیکھ لیا اہل نظر دیکھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 3