یوں نقاب رخ مقابل سے اٹھی

یوں نقاب رخ مقابل سے اٹھی
چشم صد نظارہ مشکل سے اٹھی


بازگشت شور غرقابی سہی
کوئی تو آواز ساحل سے اٹھی


قافلے ہیں کتنے درماندہ خرام
گرد راہوں سے نہ منزل سے اٹھی


تھام کر دل کیا اٹھے ارباب درد
اک قیامت تیری محفل سے اٹھی


سر سے بھی گزری ہے طوفاں کی طرح
جب بھی کوئی موج خوں دل سے اٹھی


چشم نظارہ سے مانند حجاب
تہمت نظارہ مشکل سے اٹھی