Tabish Dehlvi

تابش دہلوی

تابش دہلوی کی غزل

    زیر لب رہا نالہ درد کی دوا ہو کر

    زیر لب رہا نالہ درد کی دوا ہو کر آہ نے سکوں بخشا آہ نارسا ہو کر کر دیا تعین سے ذوق عجز کو آزاد نقش سجدہ نے میرے تیرا نقش پا ہو کر فرط غم سے بے حس ہوں غم ہے غم نہ ہونے کا درد کر دیا پیدا درد نے دوا ہو کر ہو چکے ہیں سل بازو ہے نہ ہمت پرواز ہم رہا نہ ہو پائے قید سے رہا ہو کر حسرتیں ...

    مزید پڑھیے

    ہر اک داغ دل شمع ساں دیکھتا ہوں

    ہر اک داغ دل شمع ساں دیکھتا ہوں تری انجمن ضو فشاں دیکھتا ہوں تعین سے آزاد ہیں میرے سجدے جبیں پر ترا آستاں دیکھتا ہوں فریب تصور ہے قید قفس ہے ہر اک شاخ پر آشیاں دیکھتا ہوں میں راہ طلب کا ہوں پسماندہ رہرو غبار رہ کارواں دیکھتا ہوں باندازۂ ذوق ایذا پسندی اسے آج میں مہرباں ...

    مزید پڑھیے

    عذاب ٹوٹے دلوں کو ہر اک نفس گزرا

    عذاب ٹوٹے دلوں کو ہر اک نفس گزرا شکستہ پا تھے گراں مژدۂ جرس گزرا ہجوم جلوہ و نیرنگیٔ تمنا سے تمام موسم گل موسم ہوس گزرا عجب نہیں کہ حیات دوام بھی بخشے وہ ایک لمحۂ فرقت جو اک برس گزرا یہ مصلحت کہ کہیں دہر ہے کہیں فردوس وہی جو عالم دل ہم پہ ہم نفس گزرا غم مآل رہا عرض شوق سے ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹ کر عہد تمنا کی طرح

    ٹوٹ کر عہد تمنا کی طرح معتبر ہم رہے فردا کی طرح شوق منزل تو بہت ہے لیکن چلتے ہیں نقش کف پا کی طرح جا ملیں گے کبھی گلزاروں سے پھیلتے جائیں گے صحرا کی طرح دیکھ کر حال پریشاں اپنا ہم بھی ہنس لیتے ہیں دنیا کی طرح کبھی پایاب کبھی طوفانی ہم بھی ہیں دشت کے دریا کی طرح محفل ناز میں ...

    مزید پڑھیے

    بند غم مشکل سے مشکل تر کھلا

    بند غم مشکل سے مشکل تر کھلا ہم سے جب کوئی پری پیکر کھلا مل گئی وحشی کو سودا سے نجات در کھلا دیوار میں یا سر کھلا جاں ستانی کے نئے انداز ہیں ہاتھ میں غمزے کے ہے خنجر کھلا میری وحشت نے نکالے جب سے پاؤں ایک صحرا صحن کے اندر کھلا دیکھنے میں وہ نگاہ لطف تھی کس سے پوچھیں زخم دل کیوں ...

    مزید پڑھیے

    تابشؔ ہوس لذت آزار کہاں تک

    تابشؔ ہوس لذت آزار کہاں تک راحت سے یہ غم پھر بھی مرے یار کہاں تک ہر روز اک آوازہ انا الحق کا لگائیں دیکھیں تو کہ ہے سلسلۂ دار کہاں تک ہر راستے سے منزل ہستی ہے بہت دور جائے گا مرے ساتھ غم یار کہاں تک ہاں طعنہ اغیار کے نشتر ہی سے کھل جائے اک زخم رہے گا لب گفتار کہاں تک ہیں اس کے ...

    مزید پڑھیے

    بہت جبین و رخ و لب بہت قد و گیسو

    بہت جبین و رخ و لب بہت قد و گیسو طلب ہے شرط سکوں کے ہزار ہا پہلو جو بے خودی ہے سلامت تو مل ہی جائے گا برائے فرصت اندیشہ یار کا زانو ہزار دشت بلا حلقۂ اثر میں ہیں مرا جنوں ہے کہ چشم غزال کا جادو یہ راز کھول دیا تیری کم نگاہی نے سکوں کی ایک نظر درد کے بہت پہلو صبا ہزار کرے بوئے گل ...

    مزید پڑھیے

    سب غم کہیں جسے کہ تمنا کہیں جسے

    سب غم کہیں جسے کہ تمنا کہیں جسے وہ اضطراب شوق ہے ہم کیا کہیں جسے ہے جہد منفرد سبب کاروبار دہر اک اضطراب قطرہ ہے دریا کہیں جسے نعمت کا اعتبار ہے حسن قبول سے عشرت بھی ایک غم ہے گوارا کہیں جسے ملتا نہیں ہے اہل جنوں کا کوئی سراغ بس ایک نقش پا ہے کہ صحرا کہیں جسے پہلے حیات شوق تھی ...

    مزید پڑھیے

    آغاز گل ہے شوق مگر تیز ابھی سے ہے

    آغاز گل ہے شوق مگر تیز ابھی سے ہے یعنی ہوائے باغ جنوں خیز ابھی سے ہے جوش طلب ہی موجب درماندگی نہ ہو منزل ہے دور اور قدم تیز ابھی سے ہے کیا ارتباط حسن و محبت کی ہو امید وہ جان شوق ہم سے کم آمیز ابھی سے ہے ترتیب کارواں میں بہت دیر ہے مگر آوازۂ جرس ہے کہ مہمیز ابھی سے ہے پہلی ہی ضرب ...

    مزید پڑھیے

    منزلوں کو نظر میں رکھا ہے

    منزلوں کو نظر میں رکھا ہے جب قدم رہ گزر میں رکھا ہے اک ہیولیٰ ہے گھر خرابی کا! ورنہ کیا خاک گھر میں رکھا ہے ہم نے حسن ہزار شیوہ کو جلوہ جلوہ نظر میں رکھا ہے چاہیئے صرف ہمت پرواز باغ تو بال و پر میں رکھا ہے حرم و دیر سے الگ ہم نے ابھی اک سجدہ سر میں رکھا ہے میری ہمت نے اپنی منزل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3