باغ میں جوشِ بہار آخر یہاں تک آ گیا
باغ میں جوشِ بہار آخر یہاں تک آ گیا
بڑھتے بڑھتے شعلہ گُل آشیاں تک آ گیا
اک جہاں اس حادثہ سے بے خرب ہے اور یہاں
دل میں ڈوبا نشترغم اور جاں تک آ گیا
اس کے آگے اب ایر کارواں کام ہی
گرتا پڑتا میں سواد کارواں تک آگیا
لاکھ منزل سے ہوں آگے پھر ی اے جوش طلب
مڑکے دیکھوں تو کہ میںخر کہاں تک آ گیا
اپنی برق حسن کو اب تو بروئے کار لا
دست شوق آخر حجاب درمیاں تک آگیا
پھر بھی آہ زیرلب کے ماسوا کچھ بھی نہیں
قصۂ غم یوں تو کہنے کو زباں تک آگیا
میں کہ مشت پر ہوں تابشؔ محو گلشن ہوں تو کیا
اس فریب رنگ وبو میں باغباں تک آگیا