سب غم کہیں جسے کہ تمنا کہیں جسے
سب غم کہیں جسے کہ تمنا کہیں جسے
وہ اضطراب شوق ہے ہم کیا کہیں جسے
ہے جہد منفرد سبب کاروبار دہر
اک اضطراب قطرہ ہے دریا کہیں جسے
نعمت کا اعتبار ہے حسن قبول سے
عشرت بھی ایک غم ہے گوارا کہیں جسے
ملتا نہیں ہے اہل جنوں کا کوئی سراغ
بس ایک نقش پا ہے کہ صحرا کہیں جسے
پہلے حیات شوق تھی اللہ رے انقلاب
اب اعتبار غم ہے تمنا کہیں جسے
ہے میرے کائنات تصور کا اک فریب
وہ جلوۂ خیال کہ دنیا کہیں جسے
کچھ کم نگاہیاں ہیں تجلی کی آڑ سے
ایسی بھی اک نگاہ تماشا کہیں جسے
تنہائی خیال سے تابشؔ یہ حال ہے
ایسا کوئی نہیں کہ ہم اپنا کہیں جسے