تابشؔ ہوس لذت آزار کہاں تک

تابشؔ ہوس لذت آزار کہاں تک
راحت سے یہ غم پھر بھی مرے یار کہاں تک


ہر روز اک آوازہ انا الحق کا لگائیں
دیکھیں تو کہ ہے سلسلۂ دار کہاں تک


ہر راستے سے منزل ہستی ہے بہت دور
جائے گا مرے ساتھ غم یار کہاں تک


ہاں طعنہ اغیار کے نشتر ہی سے کھل جائے
اک زخم رہے گا لب گفتار کہاں تک


ہیں اس کے تعلق سے عزیز اہل جہاں بھی
لے جائے گی آخر ہوس یار کہاں تک


آئینہ در آئینہ در آئینہ ترا حسن
حیراں ہوں ترے طالب دیدار کہاں تک


ہوتی ہی نہیں صبح قیامت بھی نمودار
جاگیں گے شب ہجر کے بیمار کہاں تک


پھیلی ہوئی ہر سمت کڑی دھوپ ہے تابشؔ
جائے گا کوئی سایۂ دیوار کہاں تک