Syed Nawab Haider Naqvi Rahi

سید نواب حیدر نقوی راہی

سید نواب حیدر نقوی راہی کی غزل

    یوں تو وہ درد آشنا بھی ہیں

    یوں تو وہ درد آشنا بھی ہیں پاس رہتے ہوئے جدا بھی ہیں جشن آزادگی بپا کیجے کاسہ بردار رہنما بھی ہیں ہے سفینہ اسیر موج بلا یوں تو کہنے کو ناخدا بھی ہیں یار بے مہر سے گلہ بھی ہے اس سے مصروف التجا بھی ہیں زندگی پر ہے اختیار ان کا بندگان خدا خدا بھی ہیں اس کے دکھ درد میں شریک رہے دل ...

    مزید پڑھیے

    درد جگر خود اپنی دوا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے

    درد جگر خود اپنی دوا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے یوں ہی کتاب زر میں لکھا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے ہجر کی رات میں شمع شبستاں حد سے بڑھ کر روشن تھی اس ہنگام میں دل بھی جلا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے روز ازل جو عہد کیا تھا انساں نے وہ سچ ہی تھا بار امانت اٹھ نہ سکا ہو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہاں ...

    مزید پڑھیے

    اک قیامت وقت سے پہلے بپا ہونے کو ہے

    اک قیامت وقت سے پہلے بپا ہونے کو ہے اے خدائے مہرباں اب اور کیا ہونے کو ہے موسم گل میں خزاں سایہ فگن ہے کس لیے درپئے آزار کیا باد صبا ہونے کو ہے جسم و جاں میں قربتوں کی انتہا ہو جائے گر جان لیں پھر دوریوں کی ابتدا ہونے کو ہے چھوڑ دی میں نے متاع خواب دنیا کے لیے حشر اک تقسیم پر اس ...

    مزید پڑھیے

    محو حیرت ہوں زمیں زادے کہاں تک آ گئے

    محو حیرت ہوں زمیں زادے کہاں تک آ گئے جن کو رہنا تھا زمیں پر آسماں تک آ گئے راز الفت دل میں رکھنے کی قسم کھائی مگر جب ہوا بدلی تو وہ نوک زباں تک آ گئے حادثوں نے دل کی بربادی پہ میری بس نہ کی وہ مٹانے کو مرا نام و نشاں تک آ گئے خود کشی تھی یا تقاضائے نموئے شوق تھا دل کے دریا آب بحر ...

    مزید پڑھیے

    وقت جیسا ہے بہ ہر طور گزر جانا ہے

    وقت جیسا ہے بہ ہر طور گزر جانا ہے آج جو زندہ حقیقت ہے کل افسانہ ہے کب جلی شمع تمنا ہمیں کچھ یاد نہیں اتنا معلوم ہے جل کر اسے بجھ جانا ہے میری وحشت نے ابھی پاؤں نکالے بھی نہ تھے دل بے تاب نے ضد کی مجھے گھر جانا ہے وا اگر باب مروت کو نہیں ہے ہونا آج ہی کہہ دیں جو کل آپ کو فرمانا ...

    مزید پڑھیے

    دل مضطر کی دوا کیجئے گا

    دل مضطر کی دوا کیجئے گا نہ ہو ممکن تو دعا کیجئے گا بام الفت سے تو گل ہی برسیں تلخئ جاں نہ سوا کیجئے گا بار جاں کو تو ذرا کم کیجے قرض احساں کا ادا کیجئے گا جاں بلب ہیں جو خزاں میں اشجار زرد پتوں کی ہوا کیجئے گا شب فرقت کے تقاضے جو ہوں دل کو دل سے نہ جدا کیجئے گا بے نشاں آپ کے ...

    مزید پڑھیے

    رفتہ رفتہ آرزوؤں کا زیاں ہونے کو ہے

    رفتہ رفتہ آرزوؤں کا زیاں ہونے کو ہے درہمی کچھ ایسی زیر آسماں ہونے کو ہے پا شکستہ ہو گئے ہیں ہم کڑکتی دھوپ میں شام غم اب دیکھیے کب اور کہاں ہونے کو ہے بے رخی گر آپ کی اے جان جاں یوں ہی رہی آخرش کار وفا دل پر گراں ہونے کو ہے ڈر ہے دل آسودۂ حرماں نہ ہو جائے کہیں آگ تھی روشن جہاں وہ ...

    مزید پڑھیے

    میں عکس گر جلوۂ جانانہ بنا ہوں

    میں عکس گر جلوۂ جانانہ بنا ہوں خوش ہوں کہ محبت کا جلو خانہ بنا ہوں دل سوز نہیں اہل چمن آتش گل سے اے باد صبا میں یوں ہی دیوانہ بنا ہوں مخفی کوئی دیوار ہے شاید مرے اندر میں اپنوں میں رہتے ہوئے بیگانہ بنا ہوں روشن حرم جاں میں ہے اک شمع تمنا دل پہلے جلایا ہے تو پروانہ بنا ہوں لازم ...

    مزید پڑھیے

    برملا حسن دل آویز کا قصہ نہ سنا

    برملا حسن دل آویز کا قصہ نہ سنا چاک دامن نا دکھا عذر زلیخا نہ سنا قابل ذکر محبت کے بہت سے رخ ہیں کار وحشت کے سوا اور کوئی افسانہ سنا وقت تیزی سے گزرتا ہے پر ایسا بھی بھی نہیں آج کہتا ہے بہت قصۂ فردا نہ سنا آئنہ رو کوئی تعبیر ذرا دکھلا دے تاکہ پہچان لوں اس کو جسے دیکھا نہ سنا کب ...

    مزید پڑھیے

    لکھا ہے دل زدوں کا برسر پیکار ہو جانا

    لکھا ہے دل زدوں کا برسر پیکار ہو جانا اور ان کا خودکشی کرنے پہ بھی تیار ہو جانا ستیزہ کاریٔ روح و بدن سے کیجیے ممکن بھڑکتے شعلہ ہائے جور کا گل مار ہو جانا نقاب رخ اٹھائی کس لیے اتنا تو فرما دیں اگر تقدیر میں ہے کشتۂ دیدار ہو جانا نشاط بے پناہ عاشقی ہے مست کامی سے کسی کا منزل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2