محو حیرت ہوں زمیں زادے کہاں تک آ گئے

محو حیرت ہوں زمیں زادے کہاں تک آ گئے
جن کو رہنا تھا زمیں پر آسماں تک آ گئے


راز الفت دل میں رکھنے کی قسم کھائی مگر
جب ہوا بدلی تو وہ نوک زباں تک آ گئے


حادثوں نے دل کی بربادی پہ میری بس نہ کی
وہ مٹانے کو مرا نام و نشاں تک آ گئے


خود کشی تھی یا تقاضائے نموئے شوق تھا
دل کے دریا آب بحر بے کراں تک آ گئے


زخم دل کی داد پانے کی توقع جن سے تھی
وہ تو الٹے جان و دل کے امتحاں تک آ گئے


کامرانی ہفتخوان شوق کی جانیں گے ہم
ڈھونڈتے عین یقیں وہم و گماں تک آ گئے


برق رفتاری میں راہیؔ سر کیا وہ سنگ میل
تھے فرشتے بھی پس رو ہم جہاں تک آ گئے