لکھا ہے دل زدوں کا برسر پیکار ہو جانا

لکھا ہے دل زدوں کا برسر پیکار ہو جانا
اور ان کا خودکشی کرنے پہ بھی تیار ہو جانا


ستیزہ کاریٔ روح و بدن سے کیجیے ممکن
بھڑکتے شعلہ ہائے جور کا گل مار ہو جانا


نقاب رخ اٹھائی کس لیے اتنا تو فرما دیں
اگر تقدیر میں ہے کشتۂ دیدار ہو جانا


نشاط بے پناہ عاشقی ہے مست کامی سے
کسی کا منزل عرفاں پہ پر اسرار ہو جانا


بکھر جاؤں گا اک لمحے میں تیری تلخ کامی سے
نہیں آساں مری یکجائی پھر اک بار ہو جانا


ہے یورش تیرگی کی شام سے لیکن غنیمت ہے
شب تنہائی کا آخر سحر آثار ہو جانا


کڑکتی دھوپ کے سناٹے جب ہوں موجزن راہیؔ
غنیمت ہے بہت صحرائے جاں کا پار ہو جانا