برملا حسن دل آویز کا قصہ نہ سنا
برملا حسن دل آویز کا قصہ نہ سنا
چاک دامن نا دکھا عذر زلیخا نہ سنا
قابل ذکر محبت کے بہت سے رخ ہیں
کار وحشت کے سوا اور کوئی افسانہ سنا
وقت تیزی سے گزرتا ہے پر ایسا بھی بھی نہیں
آج کہتا ہے بہت قصۂ فردا نہ سنا
آئنہ رو کوئی تعبیر ذرا دکھلا دے
تاکہ پہچان لوں اس کو جسے دیکھا نہ سنا
کب سے ہوں گوش بر آواز تری محفل میں
یار دل دار بس اب شکوۂ بے جا نہ سنا
کل تلک شور عنادل تھا چمن میں واں آج
اک قیامت سے کوئی دل بھی دھڑکتا نہ سنا
کسی جانب سے چلے راہیؔ ہوائے نمناک
چارہ گر ذکر تنک آبیٔ دریا نہ سنا