سخن کی شب لہو ہوتی رہے گی
سخن کی شب لہو ہوتی رہے گی کسی سے گفتگو ہوتی رہے گی وہ سورج ہے تو ہو نزدیک جاں بھی یہ تابش چار سو ہوتی رہے گی دریدہ دامنی ہے بے کلی سے اسی سے یہ رفو ہوتی رہے گی کوئی غنچہ سوار کہکشاں تھا خبر یہ کو بہ کو ہوتی رہے گی میں اکثر سوچتا رہتا ہوں کب تک زمیں بے آبرو ہوتی رہے گی سمندر کے ...