قدم خوش بدناں شعبدہ گر ہے کہ نہیں
قدم خوش بدناں شعبدہ گر ہے کہ نہیں
یہ زمیں لالہ رخ و کشت گہر ہے کہ نہیں
دیکھیے رنگ حنا روئے شفق جوش بہار
طائر خواب تو ہے تاب سفر ہے کہ نہیں
بے سبب میں نہیں تاثیر نظر کا قائل
زخم غنچہ صفت و شاخ ثمر ہے کہ نہیں
تیری آواز کلید چمنستاں ہے مگر
سینۂ نے میں گداز گل تر ہے کہ نہیں
دیکھنے جاؤں قد و عارض و گیسوئے صنم
سوچتا ہوں کہ کوئی راہ و مفر ہے کہ نہیں
سر پٹکتی ہوئی اک موج نے دریا سے کہا
آب آسودۂ دریا مرا گھر ہے کہ نہیں
زور امواج تلاطم سے ہے دریا دریا
حرف بے سود کہ دریا میں گہر ہے کہ نہیں