رسم دنیا جان کر ہرگز نہ یارانہ کرو
رسم دنیا جان کر ہرگز نہ یارانہ کرو
دوستی کے باب میں دل کا کہا مانا کرو
ایک دھیما سا تبسم رسم ہی سی بن گیا
دوستو اپنے پرائے کو تو پہچانا کرو
روشنی کا قحط ہے پر فکر فردا کس لیے
خون کی تنویر سے روشن سیہ خانہ کرو
چھوٹی موٹی بات ہو تو جنس غم دیتے رہو
جرم ہو سنگین تو خوشیوں کا جرمانہ کرو
رسم شبیری دوام زیست ہے سلطان رشکؔ
زیست کرنی ہے اگر تو سرفروشانہ کرو