Sultan Akhtar

سلطان اختر

ممتاز ترین جدید شاعروں میں نمایاں

One of prominent modern poets.

سلطان اختر کی غزل

    میں لڑکھڑایا تو مجھ کو گلے لگانے لگے

    میں لڑکھڑایا تو مجھ کو گلے لگانے لگے گناہ گار بھی میری ہنسی اڑانے لگے مری قدیم روایت کو آزمانے لگے مخالفین بھی اب کشتیاں جلانے لگے دل حریص سے تعمیر کی ہوس نہ گئی وہ سطح آب پہ کاغذ کا گھر بنانے لگے کسی کی راہ منور میں معجزہ یہ ہوا ہمارے نقش کف پا بھی جگمگانے لگے نہ جانے کس کا ...

    مزید پڑھیے

    ہر چند اپنے عکس کا دل دردمند ہو

    ہر چند اپنے عکس کا دل دردمند ہو آئینے کے لبوں پہ اگر زہر خند ہو بے مہر آفتاب کا دروازہ بند ہو آندھی ذرا تھمے تو گھٹا سر بلند ہو ہر لمحہ اس کی مدح سرائی نہ کیجیے ممکن ہے ایسی بات اسے نا پسند ہو ہر گام حوصلوں کا یہی مدعا رہا گمراہ زندگی کی مسافت دو چند ہو اخترؔ میں اختلاف کا قائل ...

    مزید پڑھیے

    برائے نام سہی دن کے ہاتھ پیلے ہیں

    برائے نام سہی دن کے ہاتھ پیلے ہیں کہیں کہیں پہ ابھی روشنی کے ٹیلے ہیں تمام رات مرے غم کا زہر چوسا ہے اسی لیے تری یادوں کے ہونٹ نیلے ہیں ہمارے ضبط کی دیوار آہنی نہ سہی تمہارے طنز کے نیزے کہاں نکیلے ہیں انہیں بھی آج کی تہذیب چاٹ جائے گی کہیں کہیں پہ جو سمٹے ہوئے قبیلے ہیں بدن کا ...

    مزید پڑھیے

    ہرا شجر نہ سہی خشک گھاس رہنے دے

    ہرا شجر نہ سہی خشک گھاس رہنے دے زمیں کے جسم پہ کوئی لباس رہنے دے کہیں نہ راہ میں سورج کا قہر ٹوٹ پڑے تو اپنی یاد مرے آس پاس رہنے دے بکھر چکے ہیں سماعت کے تلخ شیرازے اب اپنے نرم لبوں کی مٹھاس رہنے دے وہ دیکھ ڈھ چکیں وہم و گماں کی دیواریں یقین چیخ رہا ہے قیاس رہنے دے بڑا لطیف ...

    مزید پڑھیے

    ہنگاموں کے قحط سے کھڑکی دروازے مبہوت

    ہنگاموں کے قحط سے کھڑکی دروازے مبہوت آنگن آنگن ناچ رہے ہیں سناٹوں کے بھوت بوجھل آنکھیں پتھریلے لب اجڑے ہوئے رخسار سب کے کاندھوں پر رکھے ہیں چہروں کے تابوت الگ الگ خود ہی کر لے گی لمحوں کی میزان کس کو فرصت کون گنے اب برے بھلے کرتوت چمک رہے ہیں مایوسی کے تیز نکیلے دانت دل کے ...

    مزید پڑھیے

    مری قدیم روایت کو آزمانے لگے

    مری قدیم روایت کو آزمانے لگے مخالفین بھی اب کشتیاں جلانے لگے میں لڑکھڑایا تو مجھ کو گلے لگانے لگے گناہ گار بھی میری ہنسی اڑانے لگے دل حریص سے تعمیر کی ہوس نہ گئی وہ سطح آب پہ کاغذ کا گھر بنانے لگے کسی کی راہ منور میں معجزہ یہ ہوا ہمارے نقش کف پا بھی جگمگانے لگے نہ جانے کس کا ...

    مزید پڑھیے

    نفس نفس اضطراب میں تھا

    نفس نفس اضطراب میں تھا میں حلقۂ صد عتاب میں تھا سبھی نظارے نظر میں گم تھے کہ سارا منظر حجاب میں تھا پڑھا تو کچھ بھی نہ ہاتھ آیا لکھا بہت کچھ کتاب میں تھا لہو کی آہٹ پہ چونک اٹھا وہ مدتوں جیسے خواب میں تھا دلوں میں روشن نئی کہانی پرانا قصہ کتاب میں تھا بس اک ہنر تہہ بہ تہہ ...

    مزید پڑھیے

    طلسم خانۂ دل میں ہے چار سو روشن

    طلسم خانۂ دل میں ہے چار سو روشن مری نگاہ کے ظلمت کدے میں تو روشن بہت دنوں پہ ہوئی ہے رگ گلو روشن سناں کی نوک پہ ہو جائے پھر لہو روشن تمام رات میں ظلمات انتظار میں تھا تمام رات تھا مہتاب آرزو روشن میں اپنے آپ سے ہی جنگ کرتا رہتا ہوں کہ مجھ پہ ہوتا نہیں اب مرا عدو روشن عجیب شور ...

    مزید پڑھیے

    رقص طاؤس تمنا نہیں ہونے والا

    رقص طاؤس تمنا نہیں ہونے والا اب یہاں کوئی تماشا نہیں ہونے والا سرفراز جہاں ہونا ہی نہیں ہے مجھ کو صاحبو میں سگ دنیا نہیں ہونے والا کھینچ لو دست طلب بند کرو چشم امید وہ تنک ظرف کسی کا نہیں ہونے والا مجھ کو ہنگامۂ دنیا نے نوازا ہے بہت میں تو خلوت میں بھی تنہا نہیں ہونے والا پھر ...

    مزید پڑھیے

    کچھ ڈوبتا ابھرتا سا رہتا ہے سامنے

    کچھ ڈوبتا ابھرتا سا رہتا ہے سامنے ہر لمحہ اک طلسم تماشہ ہے سامنے اڑتی ہے صحن دل میں تہی منظری کی خاک رنگوں کا اک ہجوم سا بکھرا ہے سامنے بکھری ہوئی ہے دھند سر شیشۂ طلب بے رنگ و نور عکس تمنا ہے سامنے ظلمات انتشار میں آنکھیں کھلی رکھو تم جس کو ڈھونڈتے ہو وہ دنیا ہے سامنے اک خوف ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4