میں لڑکھڑایا تو مجھ کو گلے لگانے لگے
میں لڑکھڑایا تو مجھ کو گلے لگانے لگے گناہ گار بھی میری ہنسی اڑانے لگے مری قدیم روایت کو آزمانے لگے مخالفین بھی اب کشتیاں جلانے لگے دل حریص سے تعمیر کی ہوس نہ گئی وہ سطح آب پہ کاغذ کا گھر بنانے لگے کسی کی راہ منور میں معجزہ یہ ہوا ہمارے نقش کف پا بھی جگمگانے لگے نہ جانے کس کا ...