کچھ ڈوبتا ابھرتا سا رہتا ہے سامنے

کچھ ڈوبتا ابھرتا سا رہتا ہے سامنے
ہر لمحہ اک طلسم تماشہ ہے سامنے


اڑتی ہے صحن دل میں تہی منظری کی خاک
رنگوں کا اک ہجوم سا بکھرا ہے سامنے


بکھری ہوئی ہے دھند سر شیشۂ طلب
بے رنگ و نور عکس تمنا ہے سامنے


ظلمات انتشار میں آنکھیں کھلی رکھو
تم جس کو ڈھونڈتے ہو وہ دنیا ہے سامنے


اک خوف بے پناہ ہے آنکھوں کے آر پار
تاریکیوں میں ڈوبتا لمحہ ہے سامنے


ہم پھر بھی جستجو میں بھٹکتے ہیں در بہ در
حالانکہ ہر قدم پہ وہ رہتا ہے سامنے