Suhail Amjad

سہیل امجد

سہیل امجد کی غزل

    کوئی دولت کا پجاری ہو کوئی تدبیر کا

    کوئی دولت کا پجاری ہو کوئی تدبیر کا وار چل جاتا ہے ہر اک شخص پر تقدیر کا اک نیا غم روز ملتا ہے پرانے غم کے ساتھ سلسلہ ٹوٹے گا کب اس درد کی زنجیر کا سازشوں کے جال ہی پھیلے ہیں ہر اک راہ میں پیار کا رانجھا بھی خود مجرم ہے اپنی ہیر کا دھیرے دھیرے زخم پر انگور آ ہی جائے گا چپ ہی رہنا ...

    مزید پڑھیے

    مرے مد مقابل تیر خنجر اور بھالے ہیں

    مرے مد مقابل تیر خنجر اور بھالے ہیں مگر ایسے کئی بھالے مرے دل نے سنبھالے ہیں مقید دائرہ در دائرہ ہے زندگی میری مرے ہر چاند کے چاروں طرف تاریک ہالے ہیں کٹے کی زندگی کیسے مسلسل جبر میں رہ کر سفر صحرا کا ہے اور پاؤں میں چھالے ہی چھالے ہیں بھلا سکتا ہوں کیسے وار جو سینے پہ کھائے ...

    مزید پڑھیے

    صحرا میں ہوں جنوں کے بھی آثار ہی نہیں

    صحرا میں ہوں جنوں کے بھی آثار ہی نہیں سر پھوڑنے کے واسطے دیوار ہی نہیں جس کی دوائے دل کی ضرورت کے واسطے ہم چارہ گر ہوئے تو وہ بیمار ہی نہیں اپنے وطن کی خاک لیے پھر رہا ہوں میں اس کی وفاؤں سے مجھے انکار ہی نہیں تقدیر کے ہیں کھیل جواں عشق جب ہوا تب کھیلنے کے واسطے منجھدار ہی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ستم اور کوئی نہ ظلم یاد رہے گا (ردیف .. ی)

    کوئی ستم اور کوئی نہ ظلم یاد رہے گا ہم کو وطن سے ہے جو محبت یاد رہے گی جب ہم اپنی ہر شے بھولتے جاتے ہوں گے بھولتے جانے کی یہ عادت یاد رہے گی مسلے گئے تھے جانے کیوں امید کے پھول پھولوں کی انمول شہادت یاد رہے گی بھول نہ پاؤں حسن وہ چہرہ خوابوں جیسا اس سے بچھڑ جانے کی قیامت یاد رہے ...

    مزید پڑھیے